جامن کا پھل طبی خصوصیات سے بھر پور ہے

جامن کا پھل طبی خصوصیات سے بھر پور ہے

 

جامنی رنگ کا پھل جامن جو ان دنوں بازاروں میں نظر آتا ہے، نہ صرف ذائقے کے لحاظ سے بلکہ صحت کے لحاظ سے بھی بہت خاص ہے۔ جامن اور اس کے بیجوں کا صحیح مقدار میں استعمال جسم کو کئی بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔ جامن اگرچہ گرمیوں میں صرف چند ہفتوں کے لیے آتا ہے لیکن اس کے بیجوں کا پاؤڈر بنا کر اسے سال بھر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ موسمی پھل سال بھر جسم کی حفاظت میں بھی مفید ہے۔ اسے اپنے روزمرہ کے طرز زندگی میں شامل کرکے، آپ قدرتی طریقے سے صحت مند رہ سکتے ہیں۔

اسے آیوروید میں ایک طاقتور دوا کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جامن میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو جسم کو کئی بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ اسے ذیابیطس اور ہاضمے کی بیماریوں کے لیے قدرتی دوا سمجھا جاتا ہے۔ یہ پھل صرف ذائقے کے لیے ہی نہیں بلکہ جسم کو متوازن رکھنے اور بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی دیتا ہے۔

آیوروید میں اسے ذیابیطس کی قدرتی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جامن شوگر کے مریضوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس کے بیجوں کو خشک کرکے بنایا ہوا پاؤڈر روزانہ صبح و شام کھانے سے شوگر لیول کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے اندر موجود قدرتی کیمیکل خون میں شوگر کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جامن کے بیجوں کو آیوروید میں بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ جامن کھانے کے بعد اس کے بیجوں کو پھینکنا نہیں چاہیے بلکہ انہیں خشک کر کے پاؤڈر بنا لینا چاہیے۔ اس پاؤڈر کے باقاعدگی سے استعمال سے ذیابیطس، ہاضمہ اور پیشاب سے متعلق مسائل میں آرام ملتا ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اسے کسی ماہر سے مشورہ کرنے کے بعد ہی استعمال کیا جائے۔
جامن کھانے کا روایتی طریقہ یہ ہے کہ اسے کالے نمک کے ساتھ کھایا جائے۔ اس سے معدے میں گیس بننے کا مسئلہ نہیں ہوتا اور نظام ہاضمہ بھی بہتر رہتا ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف ذائقہ کو بڑھاتا ہے بلکہ جامن کی خصوصیات کو بھی زیادہ موثر بناتا ہے۔ خاص طور پر گرمیوں میں جب ہاضمے کے مسائل عام ہو جاتے ہیں تو یہ نسخہ بہت کارآمد ہے۔
آیورویدک ڈاکٹر کے مطابق جامن بھلے ہی دواؤں کی خصوصیات سے بھرپور ہو لیکن ہر انسان کے جسم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی چیز کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، جب کہ کسی دوسرے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے کسی بھی آیورویدک دوا کا استعمال شروع کرنے سے پہلے کسی تجربہ کار معالج یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

About The Author

Related Posts

Latest News